Tawaf
Regarding murtad family member
Girl’s name meaning and opinion
Is it ok to work as a librarian in a...
Ramadhan/Eid by calculation
Money to Zakaat eligible person...
Assalam alikom I'm Mohammad A Niyemy
Can a muslim woman study at...
Follow up on istikhara dream results
Results of istikhara dream
Assalamualaikum,
If ones wealth reaches more than nisab e zakat, and then one year later the same person has more than nisab e zakat, and he does not give zakat right away, rather he waits until a few weeks have passed, should he give zakat according to the amount of money he had when the year completed or should he give zakat according to the amount of money he has now?
For the Business Goods, how should the value be calculated? According to how much he wants to sell it for? Or how much he had bought it for? Or how much the market price is? Or according to something else?
How is the market price for a thing calculated when different people are selling it for different prices?
If a person has something that is makrooh-e-tahreemi, then he sells it and gets the money, what should he do with that money?if he gives sadaqa will that be considered as giving away that money?if zakat is given will that be considered as giving away that money?if that money is used in buying halal things and selling them for profit, then what should be done with the profit?
الجواب وباللہ التوفیق
ویقوم في البلد الذی المال فیہ۔ (شامي ۳؍۲۱۱ زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
اگر ایک شخص کا مال نصاب زکوٰۃ سے زیادہ ہوجاتا ہے اور اس کے ایک سال کے بعد اسی شخص کے پاس مال نصاب زکوٰۃ سے زیادہ ہوجاتا ہے اوروہ زکوٰۃ فوراً ادا نہیں کرتا ہے، اس کے برعکس وہ انتظار کرتا ہے حتیٰ کہ کچھ ہفتے گذر جاتے ہیں، کیا اسے زکوٰۃ سال پورے ہونے پر موجود نقدی کی مالیت پر ادا کرنی ہوگی یا اسے اس وقت موجود نقدی کی مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
مالِ تجارت کی قیمت کا حساب کیسے لگانا ہوگا؟ جس قیمت پردہ بیچنا چاہ رہا ہے اس کی بنیاد پر؟ یا جس قیمت پر اس نے اسے خریدا تھا؟ یا جو بازار کی قیمت ہے ؟ یا کسی اور حساب کے مطابق ؟
مختلف لوگ مختلف قیمتوں پر بیچتے ہیں، بازار کی قیمت کا کیسے حساب لگایا جائے ؟
اگر ایک شخص کے پاس ایسی چیز ہے جو مکروہ تحریمی ہے، پھر وہ اسے بیچتا ہے اور اس کی مالیت حاصل کرتا ہے، اسے اس رقم سے کیا کرنا چاہئے؟ اگر وہ اس دوران صدقہ کرتا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے وہ رقم صدقے میں دی؟ اگر وہ زکوٰۃ دیتا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے وہ رقم زکوٰۃ میں دی؟ اگر اس رقم سے حلال چیزیں خریدی جائیں اور انہیں منافع کے لیے بیچا جائے تو منافع کا کیا کرنا چاہیے .
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱) سال کی تکمیل پر جو رقم موجود ہوتی ہے، اس کے اعتبار سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، سال گزرنے کے بعد جو رقم بڑھ جائے اس ا عتبار سے واجب نہیں ہوگی ،تاہم اگر حساب مشکل ہوجائے اور پچھلے سالوں کے مال کی مقدار میں شک ہو یا یاد نہ ہو تو پھر اب موجود رقم کے اعتبار سے ادا کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔
(۲) مال تجارت کی قیمت کا اندازہ قیمتِ خرید کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس وقت بازار میں رائج نرخ کے اعتبار یعنی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے ہوگا۔پھر اس میں اگر آپ ریٹیل کا اعتبار کریں یا ہولسیل دونوں کی گنجائش ہے،البتہ ریٹیل میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہے۔ ویقوم في البلد الذی المال فیہ۔ (شامي ۳؍۲۱۱ زکریا)
(۳) اگر اللہ نے وسعت دی ہوتو اعلیٰ قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالنا بہتر ہے۔ورنہ متوسط اور اگر اس کی گنجائش نہیں ہے تواپنی سہولت اور حالت کے اعتبار سے ادا کرے۔
) ۴( جس مکروہ تحریمی چیز کا آپ ذکر کر ر ہے ہیں اس کی وضاحت کیجیے تاکہ جواب اس کے مطابق دیا جاسکے
فیعتبر قیمتہا یو م الأداء والصحیح أن ہذا مذہب جمیع أصحابنا لأن المذہب عندہم أنہ إذا ہلک النصاب بعد الحول تسقط الزکوٰۃ سواء کان من السوائم أومن أموال التجارۃالخ۔ (بدائع ، کتاب الزکاۃ، فصل فی صفۃ الواجب فی الاموال التجارۃ قدیم۲/۲۲، جدید زکریا۲/۱۱۱)
تعتبر القیمۃ الخ (درمختار ) ویعتبر یوم الأداء بالإجماع وہو الأصح الخ۔ (شامی، کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃ الغنم کراچی ۲/۲۸۶، زکریا۳/۲۱۱)
واللہ اعلم بالصواب