Tawaf
Regarding murtad family member
Girl’s name meaning and opinion
Is it ok to work as a librarian in a...
Ramadhan/Eid by calculation
Money to Zakaat eligible person...
Assalam alikom I'm Mohammad A Niyemy
Can a muslim woman study at...
Follow up on istikhara dream results
Results of istikhara dream
Assalamualaikum,
الجواب وباللہ التوفیق
Just by buying the property in the name of mother does not make it her property unless after giving to her she is given the right to use it. Hence, being considered the property of the father, it will be distributed according to the Sharia’t. The distribution will be as under:
Make 5 portions of the total inheritance. Two will be given to the son, and one each to each daughter. The demand from the daughters to distribute equally is wrong. The son will get double compared to the daughters. Because the command of equality was in the life of the father and its right only belonged to him. But as the father did not distribute and entrust the shares to you in his life, hence, after his death its distribution will be according to the Sharia’t, the detail of which is given above.
واللہ اعلم بالصواب
میرے والدین کا انتقال ہوگیا ہے اور پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ،جائیداد میرے والد نے بنائی لیکن انہوں نے سارا کچھ والدہ کے نام میں خریدا ، جب میرے والد زندہ تھے ان کی خواہش تھی کہ یہ سب ہم چاروں بہن بھائیوں میں برابر تقسیم ہوجائیں، میرا سوال یہ ہے کہ اب وہ دنیا میں نہیں، کیا ان کی خواہش پر بھی عمل کیا جائے گا کہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے میں جائیداد برابر کی تقسیم کی جائے گی جیسا کہ تینوں ، بیٹیاں دعویٰ کررہی ہیں، اگر نہیں تو مرحوم کی وراثت کیسے تقسیم کی جائے گی؟ کیا تینوں بیٹیاں مطالبہ/مجبور/دعویٰ کرسکتی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے کہ والد کی خواہش کے مطابق وراثت سب میں برابر تقسیم کی جائے؟
الجواب وباللہ التوفیق
محض والدہ کے نام کرنے سے وہ جائیداد والدہ کی نہیں ہوتی جب تک کہ انہیں دے کہ اس میں تصرف کا حق نہ دیاجائے ،اس لئے وہ جائیداد والد کی ملکیت شمار ہوکرشریعت کے اعتبار سےاس کی تقسیم ہوگی ،جس کی صورت یہ ہوگی کہ کل مال کے ۵ حصے کئے جائیں ، ان میں سے دو بیٹے کواور ایک ایک ہر بیٹی کا دیاجائے۔ بیٹیوں کابرابری کامطالبہ کرنا غلط ہے۔ بیٹے کو بیٹیوں کے مقابلہ میں دوگنا ملے گا۔کیونکہ مساوات کا حکم والد کی حین حیات تھا،اور اس کا اختیار بھی انہیں ہی حاصل تھا،لیکن چونکہ والد نےاپنی زندگی میں اس کو تقسیم کرکے آپ لوگوں کے حوالے نہیں کیا ہے اس لئے ان کی وفات کے بعد از روئے شرع اس کی تقسیم ہوگی جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔
واﷲ اعلم بالصواب